ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 100
بہار ہے کہ خزاں، دَور کیا یہ آنے لگا
کہ برگ برگ چمن کا ہے چہچہانے لگا
جڑیں تو کاٹ ہی دی ہیں بہ قحطِ آب مری
اب ایک ضرب بھی مجھ کو کسی بہانے لگا
لیا ہے نوچ بدن سے جو پیرہن میرا
ہوائے تُند مجھے بھی تو اب ٹھکانے لگا
کُھلا نہیں کہ تھا مقصود اِس سے کیا اُس کا
مجھے دکھا کے کبوتر وہ کیوں اُڑانے لگا
یہ کس ریاض کا فیضان ہے کہ اے ماجدؔ
قلم ترا ہے کرشمے نئے دکھانے لگا
ماجد صدیقی