ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
اُکتا کے زوالِ گلستاں سے
کرلی ہے مفاہمت خزاں سے
سنبھلے بھی تو کب سنبھل سکے ہم
جب تیر نکل چکا کماں سے
دیتے ہیں پتہ ہمارا اَب بھی
کُچھ پر، کہ گرے تھے آشیاں سے
اِک عمر رہا قیام جس پر
ٹوٹی ہے وہ شاخ درمیاں سے
شاخوں سے جھڑے ہیں پُھول کیونکر
شل ہوں اِسی رنجِ رفتگاں سے
دیوار اِک اور سامنے ہے
لے چاٹ اِسے بھی اب زباں سے
ماجدؔ ہے سفر جدا ہمارا
لینا ہمیں کیا ہے کارواں سے
ماجد صدیقی