احمد فراز ۔ غزل نمبر 129
ہر کوئی جاتی ہوئی رت کا اشارہ جانے
گل نہ جانے بھی تو کیا باغ تو سارا جانے
کس کو بتلائیں کہ آشوب محبت کیا ہے
جس پہ گزری ہو وہی حال ہمارا جانے
جان نکلی کسی بسمل کی نہ سورج نکلا
بجھ گیا کیوں شب ہجراں کا ستارا جانے
جو بھی ملتا ہے وہ ہم سے ہی گلہ کرتا ہے
کوئی تو صورت حالات خدارا جانے
دوست احباب تو رہ رہ کے گلے ملتے ہیں
کس نے خنجر مرے سینے میں اتارا جانے
تجھ سے بڑھ کر کوئی نادان نہیں ہو گا فراز
دشمن جاں کو بھی تو جان سے پیارا جانے
احمد فراز