احمد فراز ۔ غزل نمبر 138
بدن میں آگ سی چہرہ گلاب جیسا ہے
کہ زہرِ غم کا نشہ بھی شراب جیسا ہے
کہاں وہ قرب کہ اب تو یہ حال ہے جیسے
ترے فراق کا عالم بھی خواب جیسا ہے
مگر کبھی کوئی دیکھے کوئی پڑھے تو سہی
دل آئینہ ہے تو چہرہ کتاب جیسا ہے
وہ سامنے ہے مگر تشنگی نہیں جاتی
یہ کیا ستم ہے کہ دریا سراب جیسا ہے
فراز سنگ ملامت سے زخم زخم سہی
ہمیں عزیز ہے خانہ خراب جیسا ہے
احمد فراز