احمد فراز ۔ غزل نمبر 148
تری یادوں کا وہ عالم نہیں ہے
مگر دل کی اداسی کم نہیں ہے
ہمیں بھی یاد ہے مرگِ تمنّا
مگر اب فرصتِ ماتم نہیں ہے
ہوائے قربِ منزل کا بُرا ہو
فراقِ ہمسفر کا غم نہیں ہے
جنونِ پارسائی بھی تو ناصح
مری دیوانگی سے کم نہیں ہے
یہ کیا گلشن ہے جس گلشن میں لوگو
بہاروں کا کوئی موسم نہیں ہے
قیامت ہے کہ ہر مے خوار پیاسا
مگر کوئی حریفِ جم نہیں ہے
صلیبوں پر کھنچے جاتے ہیں لیکن
کسی کے ہاتھ میں پرچم نہیں ہے
فراز اس قحط زارِ روشنی میں
چراغوں کا دھواں بھی کم نہیں ہے
احمد فراز