احمد فراز ۔ غزل نمبر 124
وحشتِ دل صلۂ آبلہ پائی لے لے
مجھ سے یا رب مرے لفظوں کی کمائی لے لے
عقل ہر بار دکھاتی تھی جلے ہاتھ اپنے
دل نے ہر بار کہا، آگ پرائی لے لے
میں تو اس صبحِ درخشاں کو تونگر جانوں
جو مرے شہر سے کشکولِ گدائی لے لے
تو غنی ہے مگر اتنی ہیں شرائط میری
یہ محبت جو ہمیں راس نہ آئی لے لے
اپنے دیوان کو گلیوں میں لیے پھرتا ہوں
ہے کوئی جو ہنرِ زخم نمائی لے لے
احمد فراز