احمد فراز ۔ غزل نمبر 123
ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے
اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے
کتنے ناداں ہیں ترے بھولنے والے کہ تجھے
یاد کرنے کے لیئے عمر پڑی ہو جیسے
تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر
یہ گرہ اب کے مرے دل میں پڑی ہو جیسے
منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں
اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے
آج دل کھول کے روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فراز
چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے
احمد فراز