احمد فراز ۔ غزل نمبر 23
جانے نشّے میں کہ وہ آفت جاں خواب میں تھا
جیسے اک فتنہ بیدار، رواں خواب میں تھا
وہ سرِ شام، سمندر کا کنارا، ترا ساتھ
اب تو لگتا ہے کہ جیسے یہ سماں خواب میں تھا
جیسے یادوں کا دریچہ کوئی وا رہ جائے
اک ستارہ مری جانب نگراں خواب میں تھا
جب کھلی آنکھ تو میں تھا مری تنہائی تھی
وہ جو تھا قافلۂ ہمسفراں خواب میں تھا
ایسے قاتل کو کوئی ہاتھ لگاتا ہے فراز
شکر کر شکر کہ وہ دشمنِ جاں خواب میں تھا
احمد فراز