یہ اہتمامِ ملاقات گاہ گاہ بھی کیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 17
اگر ہے شرط بچھڑنا تو رسم و راہ بھی کیا
یہ اہتمامِ ملاقات گاہ گاہ بھی کیا
نہ ہو جو ذوقِ تماشا یہاں تو کچھ بھی نہیں
نظر کی بزم بھی کیا دل کی خانقاہ بھی کیا
بہت سکون ہے بیداریوں کے نرغے میں
تو مجھ کو چھوڑ گئی خواب کی سپاہ بھی کیا
سب اپنے اپنے طریقے ہیں خود نمائی کے
قبائے عجز بھی کیا فخر کی کلاہ بھی کیا
یہ راہِ شوق ہے اس پر قدم یقین سے رکھ
گماں کے باب میں اس درجہ اشتباہ بھی کیا
نہیں ہے کوئی بھی صورت سپردگی کے سوا
ہوس کی قید بھی کیا عشق کی پناہ بھی کیا
مجھے تمہاری تمہیں میری ہم نشینی کی
بس ایک طرح کی عادت سی ہے، نباہ بھی کیا
کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے میں وہ تماشا ہوں
بس اک نگاہ رُکی تھی، سو وہ نگاہ بھی کیا
عرفان ستار

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s