جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 52
ہوکر وداع سب سے، سبک بار ہو کے رہ
جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ
یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں
دنیا ہے تیری تاک میں، ہشیار ہو کے رہ
خطرہ شبِ وجود کو مہرِ عدم سے ہے
سب بے خبر ہیں، تُو ہی خبردار ہو کے رہ
شاید اتر ہی آئے خنک رنگ روشنی
چل آج رات خواب میں بیدار ہو کے رہ
کس انگ سے وہ لمس کُھلے گا، کسے خبر
تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ
تُو اب سراپا عشق ہُوا ہے، تو لے دعا
جا سر بسر اذیّت و آزار ہو کے رہ
شاید کبھی اِسی سے اٹھے پھر ترا خمیر
بنیادِ خوابِ ناز میں مسمار ہو کے رہ
کچھ دیر ہے سراب کی نظّارگی مزید
کچھ دیر اور روح کا زنگار ہو کے رہ
اب آسمانِ حرف ہُوا تا اُفق سیاہ
اب طمطراق سے تُو نمودار ہو کے رہ
بس اک نگاہ دُور ہے خوابِ سپردگی
تُو لاکھ اپنے آپ میں انکار ہو کے رہ
وہ زمزمے تھے بزمِ گماں کے، سو اب کہاں
یہ مجلسِ یقیں ہے، عزادار ہو کے رہ
اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں
احوالِ ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ
کیسے بھلا تُو بارِ مروّت اٹھائے گا
محفل ہے دوستوں کی، سو عیّار ہو کے رہ
بے قیمتی کے رنج سے خود کو بچا کے چل
بازارِ دلبری میں خریدار ہو کے رہ
فرمانروائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں
شاہِ جنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رہ
تُو ہجر کی فضیلتیں خود پر دراز رکھ
خود اپنی راہِ شوق میں دیوار ہو کے رہ
لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر
عرفان، میری مان لے، دشوار ہو کے رہ
عرفان ستار

جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ” پر 2 تبصرے

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s