اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 80
رگوں میں رقص کناں موجہِٗ طرب کیا ہے؟
اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟
ہے میری اصل اگر ماورائے وقت تو پھر
مرے لیے یہ تماشائے روز و شب کیا ہے؟
مرے کہے سے مرے گردوپیش کچھ بھی نہیں
میں صرف دیکھنے بیٹھا ہُوا ہوں، کب کیا ہے؟
نجانے کیا ہے نظر کی تلاشِ لا موجود
نجانے دل کی تمنّائے بے طلب کیا ہے؟
یہ جستجو، یہ طلب، یہ جنون و دربدری
مآلِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟
ہے گفتگو میں وہ پیچیدگی کہ سوچتا ہوں
خیال کیا تھا، کہا کیا ہے، زیرِ لب کیا ہے
میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں
تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے
پسِ زیاں جو درِ دل پہ میں نے دستک دی
‘‘کسی نے چیخ کے مجھ سے کہا، کہ ’’اب کیا ہے؟
عرفان ستار

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s