قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 137
وہ ستا کر مجھے کہتے ہیں کہ غم ہوتا ہے
یہ ستم اور بھی بالائے ستم ہوتا ہے
جل کر مرنا بھی بڑا کارِ اہم ہوتا ہے
یہ تو اک چھوٹے سے پروانے کا دم ہوتا ہے
قصۂ برہمن و شیخ کو بس رہنے دو
آج تک فیصلۂ دیر و حرم ہوتا ہے
گر حسیں دل میں نہ ہوں عظمت دل بڑھ جائے
بت کدہ تو انھیں باتوں سے حرم ہوتا ہے
پھونک اے آتشِ گل ورنہ تری بات گئی
آشیاں برق کا ممنونِ کرم ہوتا ہے
چارہ گر میں تری خاطر سے کہے دیتا ہوں
درد ہوتا ہے مگر پہلے سے کم ہوتا ہے
ہجر کی رات بھی ہوتی ہے عجب رات قمر
تارے ہنستے ہیں فلک پر مجھے غم ہوتا ہے
قمر جلالوی