یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 18
قیامت اب جہاں ہو گی ستم تیرا باں ہو گا
یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا
نہ گھبرا اے مریضِ عشق دونوں آنے والے ہیں
قضا بھی مہماں ہو گی وہ بت بھی مہماں ہو گا
بہار آخر ہے پی لی بیٹھ کر اے شیخ رندوں میں
یہ محفل پھر کہاں ہو گی یہ جلسہ پھر کہاں ہو گا
چمن میں توڑ ڈالی باغباں نے مجھ سے یہ کہہ کر
نہ شاخِ آشیاں ہو گی نہ تیرا آشیاں ہو گا
کدھر ڈھونڈے گا اپنے قافلے سے چھوٹنے والے
نہ گردِ کارواں ہو گی نہ شورِ کارواں ہو گا
مجھے معلوم ہے اپنی کہانی، ماجرا اپنا
نہ قاصد سے بیاں ہو گی نہ قاصد سے بیاں ہو گا
وہ چہرے سے سمجھ لیں گے مری حالت مرا ارماں
نہ محتاجِ بیاں ہو گی نہ محتاجِ بیں ہو گا
تم اپنے در پہ دیتے ہو اجازت دفنِ دشمن کی
مری تربت کہاں ہو گی مرا مرقد کہاں ہو گا
ابھی کیا ہے قمر ان ی ذرا نظریں تو پھرنے دو
زمیں نا مہرباں ہو گی فلک نا مہرباں ہو گا
قمر جلالوی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s