کہتی ہے بد عدو کو وفا اور وفا کو ہم

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 65
مطبوع یار کو ہے جفا اور جفا کو ہم
کہتی ہے بد عدو کو وفا اور وفا کو ہم
دشنام بھی سنی نہ تمہاری زبان سے
ہے کوستی اثر کو دعا اور دعا کو ہم
افغانِ چرس رس کی لپٹ نے جلا دیا
نامے کو ڈھونڈتی ہے صبا اور صبا کو ہم
لاتا ہے ظنِ نیم تبسم سے جوش میں
دل کو قلق، قلق کو بُکا اور بُکا کو ہم
درماں مریضِ غم کا ترے کچھ نہ ہو سکا
چھیڑے ہے چارہ گر کو دوا اور دوا کو ہم
پھر کیوں نہ دیکھنے سے عدو کے ہو منفعل
پھر اس کو دوکھتی ہے حیا اور حیا کو ہم
ہیں جاں بلب کسی کے اشارے کی دیر ہے
دیکھے ہے اس نگہ کو قضا اور قضا کو ہم
ہے آرزوئے شربتِ مرگ اب تو شیفتہ
لگتی ہے زہر ہم کو شفا اور شفا کو ہم
مصطفٰی خان شیفتہ

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s