وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 4
یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
سن سن کے ترے عشق میں اغیار کے طعنے
میرا ہی کلیجا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ان کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں سنتے
میرا یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
خط میں مجھے اوّل تو سنائی ہیں ہزاروں
آخر میں یہ لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
پھٹتا ہے جگر دیکھ کے قاصد کی مصیبت
پوچھوں تو یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
یہ خوب سمجھ لیجئے غمار وہی ہے
جو آپ سے کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
تم کو یہی شایاں ہے کہ تم دیتے ہو دشنام
مجھ کو یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
مشتاق بہت ہیں مرے کہنے کے پر اے داغؔ
یہ وقت ہی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
داغ دہلوی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s