قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 33
پیشِ ساحل اِک ہجومِ موجِ دریا ہو گیا
وہ نہانے کیا چلے آئے تماشا ہو گیا
کاٹنی ہی کیا شبِ ہستی سَرائے دہر میں
اِک ذرا سی آنکھ جھپکائی سویرا ہو گیا
کچھ مری خاموشیاں ان کی سمجھ میں آ گئیں
کچھ میری آنکھوں سے اظہارِ تمنا ہو گیا
نزع کے عالم میں قاصد لے کے جب آیا جواب
ڈوبنے والوں کو تنکے کا سہارا ہو گیا
آپنے سر پر موجِ طوفاں بڑھا کہ لیتی ہے قدم
میرا بیڑا قابلِ تعظیمِ دریا ہو گیا
دیکھ لینا یہ ستم اک دن مٹا دیں گے مجھے
تم یہ کہتے ہوے رہ جاؤ گے کیا ہو گیا
ساحلِ امید وعدہ اب تو چھوڑو اے قمر
غرقِ بحرِ آسماں ایک ایک تارا ہو گیا
قمر جلالوی