قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 96
بیمار کو کیا خاک ہوا امید سحر کی
وہ دو سانس کا دم اور یہ شب چار پہر کی
مہماں ہے کبھی میری کبھی غیر کے گھر کی
تو اے شبِ فرقت ادھر کی نہ ادھر کی
اللہ رے الفت بتِ کافر ترے در کی
منت مجھے درباں کی نہ کرنی تھی مگر کی
بیمار شبِ ہجر کی ہو خیر الٰہی
اتری ہوئی صورت نظر آتی ہے سحر کی
اس وعدہ فراموش کے آنسو نکل گئے
بیمار نے جو چہرے پر حسرت سے نظر کی
اے شمع مرے حال پہ تو روئے گی کب تک
مجھ پر تو مصیبت ہے ابھی چار پہل کی
یہ وقت وہ ہے غیر بھی اٹھ کر نہیں جاتے
آنکھوں میں مرا دم ہے تمہیں سوجھی ہے گھر کی
دم توڑنے والا ہے مریضِ خمِ گیسو
سوجھی ہے مسافر کو سرِ شام سفر کی
جاؤ بھی شبِ وعدہ رکھا خوب پریشاں
رہنے دو قسم کھا گئے جھوٹی مرے سر کی
ہر اک سے کہتے ہو کہ وہ مرتا مجھ پر
چاہے کبھی صورت بھی نہ دیکھی ہو قمر کی
قمر جلالوی