قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 136
مے کدے میں جو کوئی جام بدل جاتا ہے
عالمِ گردشِ ایام بدل جاتا ہے
شامِ فرقت وہ قیامت ہے کہ اللہ بچائے
صبح کو آدمی کا نام بدل جاتا ہے
ہم اسے پہلی محبت کی نظر کہتے ہیں
جس کے آغاز کا انجام بدل جاتا ہے
نامہ بر ان کی زباں کے تو یہ الفاظ نہیں
راستے میں کہیں پیغام بدل جاتا ہے
خواب میں رخ پہ آ جاتے ہیں ان کے گیسو
انتظامِ سحر و شام بدل جاتا ہے
تم جواں ہے کے وہی غنچہ دہن ہو یہ کیا
جب کلی کھلتی ہے تو نام بدل جاتا ہے
اے قمر ہجر کی شب کاٹ تو لیتا ہوں مگر
رنگ چہرے کا سرِ شام بدل جاتا ہے
قمر جلالوی