پروین شاکر ۔ غزل نمبر 116
سوچوں تو وہ ساتھ چل رہا ہے
دیکھوں تو نظر بدل رہا ہے
کیوں بات زباں سے کہہ کے کھوئی
دل آج بھی ہاتھ مَل رہا ہے
راتوں کے سفر میں وہم ساتھا
یہ میں ہوں کہ چاند چل رہا ہے
ہم بھی ترے بعد جی رہے ہیں
اور تُو بھی کہیں بہل رہا ہے
سمجھا کے ابھی گئی ہیں سکھیاں
اور دل ہے کہ پھر مچل رہا ہے
ہم ہی بُرے ہو گئےِ_کہ تیرا
معیارِ وفا بدل رہا ہے
پہلی سی وہ روشنی نہیں اب
کیا درد کا چاند ڈھل رہا ہے
پروین شاکر