خدا کرے کے سمجھ لے مری زباں صیاد

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 41
کہا تو ہے کہ قفس میں نہیں اماں صیاد
خدا کرے کے سمجھ لے مری زباں صیاد
قفس سے ہٹ کے ذرا سن مری فغاں صیاد
لرز رہی ہے ترے سامنے زباں صیاد
بہارِ گل میں مجھے تو کہیں چین نہیں
مرے خلاف وہاں باغباں یہاں صیاد
جو پر کتر دیے دنیا میں ہو گی رسوائی
پر اڑ کے جائیں گے جانے کہاں کہاں صیاد
قفس میں کانپ رہا ہوں کہیں فریب نہ ہو
بہارِ گل میں ہوا ہے جو مہرباں صیاد
میں کوئی دم کا ہوں مہمان تیلیاں نہ بدل
کہ جائے گی تری محنت یہ رائیگاں صیاد
تری نظر پہ ترانے تری نظر پہ فغاں
ملے گا تجھ کو نہ مجھ سا مزاج داں صیاد
جفائے چرخ پہ چھوڑا تھا آشیاں میں نے
ترے قفس میں بھی سر پہ ہے آسماں صیاد
قمر کی روشنی میں کیسے پھول کھلتے ہیں
مگر وہ چاندنی راتیں یہاں کہاں صیاد
قمر جلالوی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s