قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 90
ہوا کسی کی بھی اے باغباں نہیں رہتی
تری بہار تو کیا ہے خزاں نہیں رہتی
سنے جو حشر میں شکوے نظر بدل کئے
کہیں بھی بند تمھاری زباں نہیں رہتی
نہ دے تسلیاں صیاد برق گرنے پر
یہ بے جلائے ہوئے آشیاں نہیں رہتی
کئے جو سجدے تو دیر و حرم پکار اٹھے
خدا کی ذات مقید یہاں نہیں رہتی
قمر وہاں سے میں کشتی بچا کہ لایا ہوں
کسی کی ناؤ سلامت جہاں نہیں رہتی
قمر جلالوی