قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 107
پاس اس کا بھی تو کر اے بتِ مغرور کبھی
تجھ سے سائے کی طرح جو نہ ہوا دور کبھی
شکوۂ حسن نہ کرنا دلِ رنجور کبھی
عشق والوں نے یہ بدلا نہیں دستور کبھی
خود ہی آ جائے تو آ جائے ترا نور کبھی
ورنہ اب موسیٰ نہ جائیں گے سرِ طور کبھی
حق کی کہنا انا الحق کی صدا سے پہلے
ایسی معراج ملی تھی تجھے منصور کبھی
دیکھو آئینے نے آخر کو سکھا دی وہی بات
ہم نہ کہتے تھے کہ ہو جائے گا مغرور کبھی
جانے کب کب کے لیئے دھوپ نے بدلے مجھ سے
تیری دیوار کا سایہ جو ہوا دور کبھی
چاندنی ایسے کھلی ہو گئے ذرے روشن
داغ سینے سے قمر کے نہ ہوا دور کبھی
قمر جلالوی