ہے آگ جامہ زیب۔۔دھواں بے لباس ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 218
بخشش ہوا یقین۔۔گماں بے لباس ہے
ہے آگ جامہ زیب۔۔دھواں بے لباس ہے
ہے یہ فضا ہزار لباسوں کا اک لباس
جو بے لباس ہے وہ کہاں بے لباس ہے
ملبوس تار تارِ نفس ہے زیانِ سود
سُودِ زیان یہ ہے کہ زیاں بے لباس ہے
محمل نشینِ رنگ! کوئی پوستینِ رنگ
ریگِ رواں ہوں۔۔ریگِ رواں بے لباس ہے
اب پارہ پارہ پوششِ گفتار بھی نہیں
ہیں سانس بے رفو سو زیاں بے لباس ہے
صد جامہ پوش جس کا ہے جسم برہنہ ابھی
خلوت سرائے جاں میں وہ جاں بے لباس ہے
ہے دل سے ہر نفس ہوسِ دید کا سوال
خلوت ہے وہ کہاں۔۔وہ جہاں بے لباس ہے
ہے بُود اور نبود میں پوشش نہ پیرہن
یاراں مکین کیا کہ مکاں بے لباس ہے
تُو خود ہی دیکھ رنگِ بدن اپنا جوش رنگ
تُو اپنے ہر لباس میں جاں بے لباس ہے
غم کی برہنگی کو کہاں سے جُڑے لباس
میں لب سیے ہوئے ہوں۔۔فغاں بے لباس ہے
جون ایلیا

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s