ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 156
وہ کہکشاں وہ رہِ رقصِ رنگ ہی نہ رہی
ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی
تمارے بعد کوئی خاص فرق تو نہ ہوا
جزیں قدر کے وہ پہلی سی زندگی نہ رہی
یہ ذکر کیا کہ خرد میں بہت تصنّع ہے
ستم یہ ہے جنوں میں بھی سادگی نہ رہی
قلمروِ غمِ جاناں ہوئی ہے جب سے تباہ
دل و نظر کی فضاوں میں زندگی نہ رہی
نکال ڈالیے دل سے ہماری یادوں کو
یقین کیجیے ہم میں وہ بات ہی نہ رہی
جہاں فروز تھا یادش بخیر اپنا جنوں
پھر اُس کے بعد کسی شے میں دل کشی نہ رہی
دکھائیں کیا تمہیں داغوں کی لالہ انگیزی
گزر گئیں وہ بہاریں، وہ فصل ہی نہ رہی
وہ ڈھونڈتے ہیں سر جادہ امید کسے
وہاں تو قافلے والوں کی گرد بھی نہ رہی
جون ایلیا

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s