میرے دل سے غبار اٹھتا ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 211
بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
میرے دل سے غبار اٹھتا ہے
میں جو بیٹھا ہوں تو وہ خوش قامت
دیکھ لو! بار بار اٹھتا ہے
تیری صورت کو دیکھ کر مری جاں
خود بخود دل میں پیار اٹھتا ہے
اس کی گُل گشت سے روش بہ روش
رنگ ہی رنگ یار اٹھتا ہے
تیرے جاتے ہی اس خرابے سے
شورِ گریہ ہزار اٹھتا ہے
کون ہے جس کو جاں عزیز نہیں؟
لے ترا جاں نثار اٹھتا ہے
صف بہ صف آ کھڑے ہوئے ہیں غزال
دشت سے خاکسار اٹھتا ہے
ہے یہ تیشہ کہ ایک شعلہ سا
بر سرِ کوہسار اٹھتا ہے
کربِ تنہائی ہے وہ شے کہ خدا
آدمی کو پکار اٹھتا ہے
تو نے پھر کَسبِ زَر کا ذکر کیا
کہیں ہم سے یہ بار اٹھتا ہے
لو وہ مجبورِ شہر صحرا سے
آج دیوانہ وار اٹھتا ہے
اپنے ہاں تو زمانے والوں کا
روز ہی اعتبار اٹھتا ہے
جون اٹھتا ہے، یوں کہو، یعنی
میر و غالب کا یار اٹھتا ہے
جون ایلیا

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s