جون ایلیا ۔ غزل نمبر 223
کسی حال میں نہیں ہوں کوئی حال اب نہیں ہے
جو گئی پلک تلک تھا وہ خیال اب نہیں ہے
میں سکون پا سکوں گا یہ گماں بھی کیوں کیا تھا
ہے یہی ملال کیا کم کہ ملال اب نہیں ہے
نہ رہے اب اس کے دل میں خلشِ شکستِ وعدہ
کہ یہاں کوئی حسابِ مہ و سال اب نہیں ہے
یہ دیارِ دید کیا ہے گئے دشتِ دل سے بھی ہم
کہ ختن زمین میں بھی وہ غزال اب نہیں ہے
جو لیے لیے پھری ہے تجھے روز اک نگر میں
مرے دل ترے نگر میں وہ مثال اب نہیں ہے
لبِ پُرسوال لے کے ہمیں کُوبہ کُو ہے پِھرنا
ہو کوئی جواب برلب یہ سوال اب نہیں ہے
جون ایلیا