جون ایلیا ۔ غزل نمبر 79
کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو
سفر ہے آخر دو پلک بیچ
سفر لمبا ہے بستر نہ رہیو
ہر ایک حالت کے بیری میں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو
سہولت سے گزر جاؤ مری جاں
کہیں جینے کی خاطر مر نہ رہیو
ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھہرا
سو میرے ساتھ تو دن بھر نہ رہیو
بہت دشوار ہو جائے گا جینا
یہاں تو ذات کے اندر نہ رہیو
سویرے ہی سے گر آ جائیو آج
ہے روزِ واقعہ باہر نہ رہیو
کہیں چھپ جاؤ تہہ خانوں میں جا کر
شبِ فتنہ ہے اپنے گھر نہ رہیو
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو
جون ایلیا