جون ایلیا ۔ غزل نمبر 34
اُس نے ہم کو گمان میں رکھا
اور پھر کم ہی دھیان میں رکھا
کیا قیامت نمو تھی وہ جس نے
حشر اُس کی اٹھان میں رکھا
جوششِ خوں نے اپنے فن کا حساب
ایک چوپ، ایک چٹان میں رکھا
لمحے لمحے کی اپنی تھی اک شان
تو نہ ہی ایک شان میں رکھا
ہم نے پیہم قبول و رد کر کے
اُس کو ایک امتحان میں رکھا
تم تو اُس یاد کی امان میں ہو
اُس کو کس کی امان میں رکھا
اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو
کچھ نہیں آسمان میں رکھا
جون ایلیا