اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 158
کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی
اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی
یہ آدمی کے ہیں انفاس جس کے زہر فروش
اسے بٹھاؤ کہ میرا مزاج داں ہے یہی
کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر تو سہہ لیں گے
نظر سے دُور نہ ہونا کہ امتحاں ہے یہی
میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں
جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی
یہ ایک لمحہ جو دریافت کر لیا میں نے
وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی
تم اُن میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹہرے ہیں
سنو کہ وجہِ غمِ دل شگستگاں ہے یہی
جون ایلیا

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s