دیوان ششم غزل 1911
فلک کرنے کے قابل آسماں ہے
کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے
گئے ان قافلوں سے بھی اٹھی گرد
ہماری خاک کیا جانیں کہاں ہے
بہت نامہرباں رہتا ہے یعنی
ہمارے حال پر کچھ مہرباں ہے
ہمیں جس جاے کل غش آگیا تھا
وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہے
مژہ ہر اک ہے اس کی تیز ناوک
خمیدہ بھوں جو ہے زوریں کماں ہے
اسے جب تک ہے تیر اندازی کا شوق
زبونی پر مری خاطر نشاں ہے
چلی جاتی ہے دھڑکوں ہی میں جاں بھی
یہیں سے کہتے ہیں جاں کو رواں ہے
اسی کا دم بھرا کرتے رہیں گے
بدن میں اپنے جب تک نیم جاں ہے
پڑا ہے پھول گھر میں کاہے کو میر
جھمک ہے گل کی برق آشیاں ہے
میر تقی میر