دیوان ششم غزل 1821
دل یہی ہے جس کو دل کہتے ہیں اس عالم کے بیچ
کاش یہ آفت نہ ہوتی قالب آدم کے بیچ
چھاتی کٹتی سنگ ہی سے دل کے جانے میں نہیں
نعل سینوں پر جڑے جاتے ہیں اس ماتم کے بیچ
نقشہ اس کا مردم دیدہ میں میرے نقش ہے
یعنی صورت اس ہی کی پھرتی ہے چشم نم کے بیچ
شاد وے جو اب جواں تازہ ہوئے ہیں شہر میں
دل زدہ ہم شیب میں رہتے ہیں اپنے غم کے بیچ
دل نہ ایسا کر کہ پشت چشم وہ نازک کرے
سو بلائیں ہیں یہاں ان ابروؤں کے خم کے بیچ
حد سے افزوں اس گلی میں شور ہے عشاق کا
کون سنتا ہے کسو کی بات اس اودھم کے بیچ
رونق آبادی ملک سخن ہے اس تلک
ہوں ہزاروں دم الٰہی میر کے اک دم کے بیچ
میر تقی میر