دیوان ششم غزل 1858
زمانے نے دشمن کیا یار کو
سلایا مرے خوں میں تلوار کو
کھلی رہتی ہے چشم آئینہ ساں
کہاں خواب مشتاق دیدار کو
مجھے عشق اس پاس یوں لے گیا
کوئی لاوے جیسے گنہگار کو
محبت میں دشوار دینی ہے جاں
نہ جاتے سنا سہل آزار کو
کوئی دن کرے زندگی عشق میں
جو دم لینے دیں دل کے بیمار کو
بکا میں تو بازار خوبی میں جا
کہ واں بیچتے تھے خریدار کو
مرے منھ پہ رکھا ہے رنگ اب تلک
ہزار آفریں چشم خونبار کو
تب اک جرعہ مے دیں مجھے مغبچے
گرو جب کروں رخت و دستار کو
کرو مت درنگ اٹھتے اس پینٹھ میں
چلو مول لو میر بازار کو
میر تقی میر