حیرت سے آفتاب جہاں کا تہاں رہا

دیوان ششم غزل 1807
اب یار دوپہر کو کھڑا ٹک جو یاں رہا
حیرت سے آفتاب جہاں کا تہاں رہا
جو قافلے گئے تھے انھوں کی اٹھی بھی گرد
کیا جانیے غبار ہمارا کہاں رہا
سوکھی پڑی ہیں آنکھیں مری دیر سے جو اب
سیلاب ان ہی رخنوں سے مدت رواں رہا
اعضا گداز عشق سے ایک ایک بہ گئے
اب کیا رہا ہے مجھ میں جو میں نیم جاں رہا
منعم کا گھر تمادی ایام میں بنا
سو آپ ایک رات ہی واں میہماں رہا
اس کے فریب لطف پہ مت جا کہ ہمنشیں
وہ دیر میرے حال پہ بھی مہرباں رہا
اب در پہ اس کے گھر کے گرا ہوں وگر نہ میں
مدت خرابہ گرد ہی بے خانماں رہا
ہے جان تو جہان ہے مشہور ہے مثل
کیا ہے گئے پہ جان کے گو پھر جہاں رہا
ترک شراب خانہ ہے پیری میں ورنہ میر
ترسا بچوں ہی میں رہا جب تک جواں رہا
میر تقی میر