دیوان سوم غزل 1291
ٹھوکر لگاکے چلنا اس رشک ماہ کو بھی
یہ چوٹ ہی رہی ہے اس روسیاہ کو بھی
اس شاہ حسن کی کچھ مژگاں پھری ہوئی ہیں
غمزے نے ورغلایا شاید سپاہ کو بھی
کی عمر صرف ساری پر گم ہے مطلب اپنا
منزل نہ پہنچے ہم تو طے کرکے راہ کو بھی
سر پھوڑنا ہمارا اس لڑکے پر نہ دیکھو
ٹک دیکھو اس شکست طرف کلاہ کو بھی
کرتی نہیں خلش ہی مژگان یار دل میں
کاوش رہی ہے جی سے اس کی نگاہ کو بھی
خوں ریزی کے تو لاگو ہوتے نہیں یکایک
پہلے تو پوچھتے ہیں ظالم گناہ کو بھی
جوں خاک سے ہے یکساں میرا نہال قامت
پامال یوں نہ ہوتے دیکھا گیاہ کو بھی
ہر لحظہ پھیر لینا آنکھوں کا ہم سے کیا ہے
منظور رکھیے کچھ تو بارے نباہ کو بھی
خواہش بہت جو ہو تو کاہش ہے جان و دل کی
کچھ کم کر ان دنوں میں اے میر چاہ کو بھی
میر تقی میر