دیوان پنجم غزل 1668
وہ نہیں ملتا ایک کسو سے مرتے ہیں اودھر جاجا لوگ
یعنی ضائع اپنے تئیں کرتے ہیں اس بن کیا کیا لوگ
جیسے غم ہجراں میں اس کے عاشق جی کھو بیٹھے ہیں
برسوں مارے چرخ فلک تو ایسے ہوویں پیدا لوگ
زلف و خال و خط سے اس کے جہاں تہاں اب مبحث ہے
عقل ہوئی ہے گم خلقت کی یا کہتے ہیں سودا لوگ
چار قدم چلنے میں اس کے دیکھتے جاتے ہیں جو کفک
فتنے سر کھینچا ہی کریں ہیں ایک قیامت برپا لوگ
دنیا جاے نہیں رہنے کی میر غرور نہیں اچھا
جو جاگہ سے جاتے ہیں اپنی وے کرتے ہیں بے جا لوگ
میر تقی میر