یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا

دیوان اول غزل 104
واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا
آیا جو واقعے میں درپیش عالم مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا
دیکھا جو اوس پڑتے گلشن میں ہم تو آخر
گل کا وہ روے خنداں چشم پرآب نکلا
پردے ہی میں چلا جا خورشید تو ہے بہتر
اک حشر ہے جو گھر سے وہ بے حجاب نکلا
کچھ دیر ہی لگی نہ دل کو تو تیر لگتے
اس صید ناتواں کا کیا جی شتاب نکلا
ہر حرف غم نے میرے مجلس کے تیں رلایا
گویا غبار دل کا پڑھتا کتاب نکلا
روے عرق فشاں کو بس پونچھ گرم مت ہو
اس گل میں کیا رہے گا جس کا گلاب نکلا
مطلق نہ اعتنا کی احوال پر ہمارے
نامے کا نامے ہی میں سب پیچ و تاب نکلا
شان تغافل اپنے نوخط کی کیا لکھیں ہم
قاصد موا تب اس کے منھ سے جواب نکلا
کس کی نگہ کی گردش تھی میر رو بہ مسجد
محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا
میر تقی میر