دیوان دوم غزل 943
کھینچتا ہے دلوں کو صحرا کچھ
ہے مزاجوں میں اپنے سودا کچھ
دل نہیں جمع چشم تر سے اب
پھیلتا سا چلا یہ دریا کچھ
شہر میں حشر کیوں نہ برپا ہو
شور ہے میرے سر میں کیسا کچھ
ویسے ظاہر کا لطف ہے چھپنا
کم تماشا نہیں یہ پردہ کچھ
خلق کی کیا سمجھ میں وہ آیا
آپ سے تو گیا نہ سمجھا کچھ
یاس سے مجھ کو بھی ہو استغنا
گو نہ ہو اس کو میری پروا کچھ
کچھ نہ دیکھا تھا ہم نے پر تو بھی
آنکھ میں آئی ہی نہ دنیا کچھ
اب تو بگڑے ہی جاتے ہیں خوباں
رنگ صحبت نہیں ہے اچھا کچھ
کچھ کہو دور ہے بہت وہ شوخ
اپنے نزدیک تو نہ ٹھہرا کچھ
وصل اس کا خدا نصیب کرے
میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ
میر تقی میر