دیوان دوم غزل 946
اب تو صبا چمن سے آتی نہیں ادھر کچھ
ہم تک نہیں پہنچتی گل کی خبر عطر کچھ
ذوق خبر میں ہم تو بے ہوش ہو گئے تھے
کیا جانے کب وہ آیا ہم کو نہیں خبر کچھ
یہ طشت و تیغ ہے اب یہ میں ہوں اور یہ تو
ہے ساتھ میرے ظالم دعویٰ تجھے اگر کچھ
وے دن گئے کہ بے غم کوئی گھڑی کٹے تھی
تھمتے نہیں ہیں آنسو اب تو پہر پہر کچھ
ان اجڑی بستیوں میں دیوار و در ہیں کیا کیا
آثار جن کے ہیں یہ ان کا نہیں اثر کچھ
واعظ نہ ہو معارض نیک و بد جہاں سے
جو ہوسکے تو غافل اپنا ہی فکر کر کچھ
آنکھوں میں میری عالم سارا سیاہ ہے اب
مجھ کو بغیر اس کے آتا نہیں نظر کچھ
ہم نے تو ناخنوں سے منھ سارا نوچ ڈالا
اب کوہکن دکھاوے رکھتا ہے گر ہنر کچھ
تلوار کے تلے ہی کاٹی ہے عمر ساری
ابروے خم سے اس کے ہم کو نہیں ہے ڈر کچھ
گہ شیفتہ ہیں مو کے گہ بائولے ہیں رو کے
احوال میر جی کا ہے شام کچھ سحر کچھ
میر تقی میر