ہر زماں ملتے تھے باہم سو زمانہ ہو گیا

دیوان سوم غزل 1077
ہجر کی اک آن میں دل کا ٹھکانا ہو گیا
ہر زماں ملتے تھے باہم سو زمانہ ہو گیا
واں تعلل ہی تجھے کرتے گئے شام و سحر
یاں ترے مشتاق کا مرنا بہانہ ہو گیا
شیب میں بھی ہے لباس جسم کا ظاہر قماش
پر اسے اب چھوڑیے جامہ پرانا ہو گیا
کہنے تو کہہ بیٹھے مہ بہتر ہے روے یار سے
شہر میں پھر ہم کو مشکل منھ دکھانا ہو گیا
صد سخن آئے تھے لب تک پر نہ کہنے پائے ایک
ناگہاں اس کی گلی سے اپنا جانا ہو گیا
رہنے کے قابل تو ہرگز تھی نہ یہ عبرت سرائے
اتفاقاً اس طرف اپنا بھی آنا ہو گیا
سینکڑوں افسوں دنوں کو پڑھتے تھے تس پر بھی میر
بیٹھنا راتوں کو باہم اب فسانہ ہو گیا
میر تقی میر