ہرچند چاہتا ہوں پر جی نہیں سنبھلتا

دیوان سوم غزل 1090
دل رات دن رہے ہے سینے میں عشق ملتا
ہرچند چاہتا ہوں پر جی نہیں سنبھلتا
اب تو بدن میں سارے اک پھنک رہی ہے آتش
وہ مہ گلے سے لگتا تو یوں جگر نہ جلتا
شب ماہ چاردہ تھا کس حسن سے نمایاں
ہوتا بڑا تماشا جو یار بھی نکلتا
اے رشک شمع گویا تو موم کا بنا ہے
مہتاب میں تجھی کو دیکھا ہے یوں پگھلتا
تکلیف باغ ہم کو یاروں نے کی وگرنہ
گل پھول سے کوئی دم اپنا بھی دل بہلتا
رونے کا جوش ویسا آنکھوں کو ہے بعینہ
جیسے ہو رود کوئی برسات میں ابلتا
کرتا ہے وے سلوک اب جس سے کہ جان جاوے
ہم میر یوں نہ مرتے اس پر جو دل نہ چلتا
میر تقی میر