ہاتھ گلوں سے گلدستے ہیں شمع نمط ہے سر پر داغ

دیوان پنجم غزل 1650
کیا کہیے میاں اب کے جنوں میں سینہ اپنا یکسر داغ
ہاتھ گلوں سے گلدستے ہیں شمع نمط ہے سر پر داغ
داغ جلائے فلک نے بدن پر سرو چراغاں ہم کو کیا
کہاں کہاں اب مرہم رکھیں جسم ہوا ہے سراسر داغ
صحبت درگیر آگے اس کے پہر گھڑی ساعت نہ ہوئی
جب آئے ہیں گھر سے اس کے تب آئے ہیں اکثر داغ
غیر کو دیکھ کے اس مجلس میں غیرت عشق سے آگ لگی
اچھلے کودے سپند نمط ہم ہو گئے آخر جل کر داغ
جلتی چھاتی پہ سنگ زنی کی سختی ایام سے میر
گرمی سے میری آتش دل کی سارے ہوئے وے پتھر داغ
میر تقی میر