دیوان چہارم غزل 1374
کیا ہم بیاں کسو سے کریں اپنے ہاں کی طرح
کی عشق نے خرابی سے اس خانداں کی طرح
جوں سبزہ چل چمن میں لب جو پہ سیر کر
عمر عزیز جاتی ہے آب رواں کی طرح
جو سقف بے عمد ہو نہیں اس کا اعتماد
کس خانماں خراب نے کی آسماں کی طرح
اثبات بے ثباتی ہوا ہوتا آگے تو
کیوں اس چمن میں ڈالتے ہم آشیاں کی طرح
اب کہتے ہیں بلا ہے ستم کش یہ پیرگی
قد جو ہوا خمیدہ ہمارا کماں کی طرح
نقصان جاں صریح تھا سودے میں عشق کے
ہم جان کر نکالی ہے جی کے زیاں کی طرح
دل کو جو خوب دیکھا تو ہو کا مکان ہے
ہے اس مکاں میں ساری وہی لامکاں کی طرح
کل دیکھ آفتاب کو رویا ہوں دیر تک
غصے میں ایسی ہی تھی مرے مہرباں کی طرح
جاوے گا اپنی بھول طرح داری میر وہ
کچھ اور ہو گئی جو کسو ناتواں کی طرح
میر تقی میر