کیجیے کیا میر صاحب بندگی بے چارگی

دیوان اول غزل 448
لاعلاجی سے جو رہتی ہے مجھے آوارگی
کیجیے کیا میر صاحب بندگی بے چارگی
کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا یکبارگی
روے گل پر روز و شب کس شوق سے رہتا ہے باز
رخنۂ دیوار ہے یا دیدئہ نظارگی
اشک خونیں آنکھ میں بھر لا کے پی جاتا ہوں میں
محتسب رکھتا ہے مجھ پر تہمت مے خوارگی
مت فریب سادگی کھا ان سیہ چشموں کا میر
ان کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے بڑی عیارگی
میر تقی میر