کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں

دیوان اول غزل 313
کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں
کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں
کہے تو نخل صنوبر ہوں اس چمن میں میں
کہ سر سے پائوں تلک دل ہی بار لایا ہوں
جہاں میں گریہ نہ پہنچا بہم مجھے دلخواہ
پہ نوحؑ کے سے تو طوفاں ہزار لایا ہوں
نہ تنگ کر اسے اے فکر روزگار کہ میں
دل اس سے دم کے لیے مستعار لایا ہوں
کسی سے مانگا ہے میں آج تک کہ جی لیوے
یہ احتیاج تجھی تک اے یار لایا ہوں
پھر اختیار ہے آگے ترا یہ ہے مجبور
کہ دل کو تجھ تئیں بے اختیار لایا ہوں
یہ جی جو میرے گلے کا ہے ہار تو ہی لے
ترے گلے کے لیے میں یہ ہار لایا ہوں
چلا نہ اٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میر
ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں
میر تقی میر