کھو گئے دنیا سے تم ہو اور اب دنیا ہو میاں

دیوان دوم غزل 907
کیا کہیں پایا نہیں جاتا ہے کچھ تم کیا ہو میاں
کھو گئے دنیا سے تم ہو اور اب دنیا ہو میاں
مت حنائی پائوں سے چل کر کہیں جایا کرو
دلی ہے آخر نہ ہنگامہ کہیں برپا ہو میاں
دل جہاں کھویا گیا کھویا گیا پھر دیکھیے
کون مرتا ہے جیے ہے کون ناپیدا ہو میاں
دل کو لے کر صاف یوں آنکھیں ملاتا ہے کوئی
تب تلک ہی لطف ہے جب تک کہ کچھ پردہ ہو میاں
ایک جنبش میں ترے ابرو کی ٹل جاتی ہے بھیڑ
درمیاں آوے اگر تلوار تو پرچھا ہو میاں
برسوں تک چھایا رہا ہے چشم تر پر ابر سا
پاٹ دامن کا نچوڑوں کوئی تو دریا ہو میاں
شہر میں تو موسم گل میں نہیں لگتا ہے جی
یا گریباں کوہ کا یا دامن صحرا ہو میاں
مدعی عشق تو ہیں عزلتی شہر لیک
جب گلی کوچوں میں کوئی اس طرح رسوا ہو میاں
گفتگو اتنی پریشاں حال کی یہ درہمی
میر کچھ دل تنگ ہے ایسا نہ ہو سودا ہو میاں
میر تقی میر