دیوان دوم غزل 786
دیکھیے کب ہو وصال اب تو لگے ہے ڈر بہت
کوفت گذرے ہے فراق یار میں جی پر بہت
دل کی ویسی ہے خرابی کثرت اندوہ سے
جیسے رہ پڑتا ہے دشمن کا کہیں لشکر بہت
ہم نشیں جا بیٹھ محنت کش کوئی دل چاہیے
عشق تیرا کام ہے تو ہے بغل پرور بہت
بس نہیں مجھ ناتواں کا ہائے جو کچھ کرسکوں
مدعی پُرچَک سے اس کی پڑ گیا ہے ور بہت
سخت کر جی کیونکے یک باری کریں ہم ترک شہر
ان گلی کوچوں میں ہم نے کھائے ہیں پتھر بہت
دیکھ روے زرد پر بھی میرے آنسو کی ڈھلک
اے کہ تونے دیکھی ہے غلطانی گوہر بہت
ہم نفس کیا مجھ کو تو رویا کرے ہے روز و شب
رہ گئے ہیں مجھ سے کوے یار میں مرکر بہت
کم مجھی سے بولنا کم آنکھ مجھ پر کھولنا
اب عنایت یار کی رہتی ہے کچھ ایدھر بہت
کیا سبب ہے اب مکاں پر جو کوئی پاتا نہیں
میر صاحب آگے تو رہتے تھے اپنے گھر بہت
میر تقی میر