کل درد دل کہا سو مرا منھ ابل گیا

دیوان چہارم غزل 1325
شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا
کل درد دل کہا سو مرا منھ ابل گیا
بے یار حیف باغ میں دل ٹک بہل گیا
دے گل کو آگ چار طرف میں نہ جل گیا
اس آہوے رمیدہ کی شوخی کہیں سو کیا
دکھلائی دے گیا تو چھلاوا سا چھل گیا
دن رات خوں کیا ہی کیے ہم جگر کو پھر
گر پھول گل سے کوئی گھڑی جی بہل گیا
تیور بدلنے سے تو نہیں اس کے بے حواس
اندیشہ یہ ہے طور ہی اس کا بدل گیا
ہرچند میں نے شوق کو پنہاں کیا ولے
ایک آدھ حرف پیار کا منھ سے نکل گیا
کرتے ہیں نذر ہم کہ نہ الفت کریں کہیں
گر دل ضعیف اب کے ہمارا سنبھل گیا
چلنے لگے تھے راہ طلب پر ہزار شکر
پہلے قدم ہی پائوں ہمارا بچل گیا
میں دہ دلا تو آگے ہی تھا فرط شوق سے
طور اس کا دیکھ اور بھی کچھ دل دہل گیا
سر اب لگے جھکانے بہت خاک کی طرف
شاید کہ میرجی کا دماغی خلل گیا
میر تقی میر