کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں

دیوان سوم غزل 1182
کبھو ملے ہے سو وہ یوں کہ پھر ملا نہ کریں
کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں
ہوئی یہ چاہ میں مشکل کہ جی گیا ہوتا
نہ رہتے جیتے اگر ہم مساہلہ نہ کریں
ہمارے حرف پریشاں ہی لطف رکھتے ہیں
جنوں ہے بحث جو وحشت میں عاقلانہ کریں
صفاے دل جو ہوئی ٹک تو دیکھیں ہیں کیا کیا
ہم ایسے آئینے کو اپنے کیوں جلا نہ کریں
وبال میں نہ گرفتار ہوں کہیں مہ و مہر
خدا کرے ترے رخ سے مقابلہ نہ کریں
دل اب تو ہم سے ہے بدباز اگر رہے جیتے
کسو سے ہم بھی ولے پھر معاملہ نہ کریں
سخن کے ملک کا میں مستقل امیر ہوں میر
ہزار مدعی بھی مجھ کو دہ دلا نہ کریں
میر تقی میر