دیوان پنجم غزل 1669
دل دل لوگ کہا کرتے ہیں تم نے جانا کیا ہے دل
چشم بصیرت وا ہووے تو عجائب دید کی جا ہے دل
اوج و موج کا آشوب اس کے لے کے زمیں سے فلک تک ہے
صورت میں تو قطرئہ خوں ہے معنی میں دریا ہے دل
جیسے صحرا کو کشادہ دامن ہم تم سنتے آتے ہیں
بند کر آنکھیں ٹک دیکھو تو ویسا ہی صحرا ہے دل
کوہکن و مجنوں وامق تم جس سے پوچھو بتا دیوے
عشق و جنوں کے شہروں میں ہر چار طرف رسوا ہے دل
ہائے غیوری دل کی اپنے داغ کیا ہے خود سر نے
جی ہی جس کے لیے جاتا ہے اس سے بے پروا ہے دل
مت پوچھو کیوں زیست کرو ہو مردے سے افسردہ تم
ہجر میں اس کے ہم لوگوں نے برسوں تک مارا ہے دل
میر پریشاں دل کے غم میں کیا کیا خاطرداری کی
خاک میں ملتے کیوں نہ پھریں اب خون ہو بہ بھی گیا ہے دل
میر تقی میر