وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے

دیوان دوم غزل 1044
کیا حال بیاں کریے عجب طرح پڑی ہے
وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے
کیا فکر کروں میں کہ ٹلے آگے سے گردوں
یہ گاڑی مری راہ میں بے ڈول اڑی ہے
ہے چشمک انجم طرف اس مہ کے اشارہ
دیکھو تو مری آنکھ کہاں جاکے لڑی ہے
کیا اپنی شررریزی کہیں پلکوں کی صف کی
ہم جانتے ہیں ہم پہ جو یہ باڑھ جھڑی ہے
وے دن گئے جو پہروں لگی رہتی تھیں آنکھیں
اب یاں ہمیں مہلت کوئی پل کوئی گھڑی ہے
ایسا نہ ہوا ہو گا کوئی واقعہ آگے
اک خواہش دل ساتھ مرے جیتی گڑی ہے
کیا نقش میں مجنوں ہی کے تھی رفتگی عشق
لیلیٰ کی بھی تصویر تو حیران کھڑی ہے
جاتے ہیں چلے متصل آنسو جو ہمارے
ہر تار نگہ آنکھوں میں موتی کی لڑی ہے
کھنچتا ہی نہیں ہم سے قدخم شدہ ہرگز
یہ سست کماں ہاتھ پر اب کتنی کڑی ہے
گل کھائے ہیں افراط سے میں عشق میں اس کے
اب ہاتھ مرا دیکھو تو پھولوں کی چھڑی ہے
وہ زلف نہیں منعکس دیدئہ تر میر
اس بحر میں تہ داری سے زنجیر پڑی ہے
میر تقی میر